187

سیاست میں سب جائز

پاکستان میں سکہ رائج الوقت کے مطابق کہا جاتا ہے کہ محبت میں، دشمنی میں،جنگ میں اور سیاست میں سب جائز ہے اس لیے ہم بڑی بڑی باتوں کو بھی یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں لیکن یقین کریں یہ صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا وہاں اچھائی کو اچھائی سمجھا جاتا ہے اور برائی کو برائی سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کا سرعام اظہار بھی کیا جاتا ہے دنیا میں محبت کے کچھ اصول ہیں نفرت دشمنی بھی کچھ اصولوں پر کی جاتی ہے بلکہ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں خود اسلام نے جنگوں کے اصول واضح کیے جس مذہب کے ہم پیروکار ہیں اس میں سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اس مذہب میں سب سے بڑی عبادت انسان کی خدمت ہے لیکن اگر ہم اپنے معاملات پر نظر ڈالیں تو سب سے بڑے جھوٹے کو ہم سب سے بڑا سیاستدان کہتے ہیں سب سے بڑے فراڈیے کو ہم سب سے بڑا عقلمند سمجھتے ہیں جس معاشرے میں عزت کا معیار روپیہ پیسہ ہو وہاں آپ اس معاشرے کے اکابرین سے کس اخلاقیات کی توقع کر سکتے ہیں میری درخواست ہے کہ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور صرف اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ جنھیں باعزت تصور کرتے ہیں ان کے باعزت ہونے کا معیار کیا ہے جن معاشروں نے ترقی کی ہے ان معاشروں کی اخلاقی قدریں بہتر ہیں وہ جھوٹ نہیں بولتے وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں وہ اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں وہاں انسانوں سے زیادہ طاقتور سسٹم ہوتا ہے وہاں کوئی بااثر شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوتا وہاں انسان قانون کے تابع ہوتے ہیں ہماری طرح قانون انسانوں کے تابع نہیں ہوتا اس رونا رونے کی وجہ تازہ ترین سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا ایکشن ہے جس کے تحت انھوں نے تیسری قسط میں بھی تحریک انصاف کے 35 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے تازہ ترین سر پرائز دیا ہے راجہ پرویز اشرف کو چاہیے تھا کہ اگر انھیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ دس ماہ سے لٹکائے جانے والے استعفے اب خطرہ محسوس ہو رہے ہیں اور تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی میں پہنچ کر حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں تو انھیں تمام اراکین اسمبلی کے استعفے ایک ساتھ منظور کر لینے چاہیں تھے اس طرح ان کامقصد بھی پورا ہو جاتا اور بھرم بھی رہ جاتا بلکہ احسان علیحدہ سے ہوتا کہ تحریک انصاف کے مطالبہ پر انھوں نے ان کے استعفے منظور کر کے انھیں آزاد کر دیا ہے اب جبکہ تحریک انصاف کی سیاسی چال کہ ہم اسمبلی میں آ رہے ہیں سے گھبرا کر سپیکر نے 35 استعفے پہلے منظور کر لیے اور کل جب تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی انھیں ملنے کے لیے قومی اسمبلی پہنچے تو انھوں نے پہلے ہی 35 مزید ارکان کے استعفے منظور کر لیے اور خود غائب ہو گئے۔

عوام میں اس کا تاثر کچھ اچھا نہیں جا رہا عوام سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سے خوفزدہ ہے اپنی طرف سے حکومت اپنے آپ کو اعتماد کے ووٹ سے بچانے اور عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا نہ کرنے کے خوف کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے لیکن حکومت اپنے پاوں پر خود کلہاڑا مار رہی ہے جتنی بڑی تعداد میں حکومت استعفے منظور کرتی جا رہی ہے اتنا ہی جلد الیکشن کا دباو حکومت پر بڑھتا جا رہا ہے عوام کی یہ نفسیات ہے وہ دلیر آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرتی ہے بزدل اور ڈرپوک کو پسند نہیں کیا جاتا میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جن 70 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے گئے ہیں آئینی طور پر ان حلقوں میں دو ماہ کے اندر ضمنی الیکشن سےآپ کیسے راہ فرار اختیار کر سکتے ہیں اور پھر اس کے ایک ماہ بعد یعنی تین ماہ کے اندر جو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں وہاں الیکشن کروانے پڑیں گے اور پھر جنرل الیکشن سر پر ہیں اس کے اگلے تین ماہ کے بعد جنرل الیکشن کروانے پڑیں گے یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ سارا سال قوم کے ساتھ الیکشن الیکشن کھیلتے رہیں قسطوں میں الیکشن حکومت کے لیے نقصان دہ ہے ایک ہی دفعہ عام انتخابات میں پھر بھی انتخابی ماحول میں شاید کہیں داو لگ جائے لیکن قسطوں میں عوام کو فیس کرنا بہت مشکل ہو جائے گا ساتھ ہی ساتھ جو ملک کی مجموعی طور پر معاشی صورتحال ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی چالبازیاں سمجھ سے بالاتر ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکمرانوں نے فیصلہ کر لیا ہو کہ جتنے دن معاملات کو گھسیٹا جا سکتا ہے گھسیٹو جب سمجھیں گے اب ممکن نہیں رہا اس وقت چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ میاں نواز شریف نے وطن واپس آنے سے انکار کر دیا ہے البتہ مریم نواز کو ایک بیانیہ دے کر بھیجا جا رہا ہے اگر اس بیانیے کو تھوڑی بہت پذیرائی ملی تو پھر شاید میاں نواز شریف وطن واپسی کا رسک لیں گے ورنہ وہ وطن واپس نہیں آئیں گے مریم نواز ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف بھر پور مہم چلائیں گی کہ انھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت سازش کے تحت ختم کی اور سازش کے تحت عمران خان کو لایا گیا اب عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ میاں ثاقب نثار اور جنرل فیض حمید کو ایک پارٹی بنایا جائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مریم نواز پاکستان پہنچ کر بڑے جلسے جلوس کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں اور عوام ان کے نئے بیانیہ پر کان دھرتے ہیں یا نہیں کیونکہ تحریک انصاف عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا چکی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پی ڈی ایم کو اکھٹا کر کے عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا مریم نواز اپنے بیانیہ کو عام کرنے کے لیے میڈیا کمپین بھی ڈیزائن کر رہی ہیں جن میں میڈیا کے ماہر جادوگروں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔