Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
210

سیاسی گھنجل

ملک میں جاری سیاسی کشمکش غیریقینی ہیجانی کیفیت اور سیاسی داو پیج کی تصویر کشی کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں کیونکہ جو کچھ ہمارے معزز ایوانوں کے انتہائی معزز اراکین محترم سیاستدان ہمارے سیاسی نظام میں گند گھول رہے ہیں اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے عام لوگوں کے سمجھنے والے روزمرہ کے استعمال کی زبان میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے جس قسم کے سیاسی پینتھرے مارے جا رہے ہیں جس قسم کی اخلاقیات کی اعلی معراج کا قوم کو درس دیا جا رہا ہے جس قسم کی شائستہ گفتگو کر کے اپنے بیانیے پرموٹ کیے جا رہے ہیں اس ماحول میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے گالیوں اور تھرڈ کلاس قسم کی زبان سے کمتر سے بات بنے گی نہیں چونکہ یہ عام روٹین کے حالات نہیں نہ ہی یہ روٹین کی ،یکیاں، ہیں اس لیے معافی چاہتا ہوں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی منظر کشی اپنے بس کی بات نہیں بہر حال جو کچھ سمجھ میں آئے بس اسی پر گزارہ کر لیں دنیا میں تمام تر قوانین اخلاقیات سے اخذ کیے جاتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ تمام قوانین کی بنیاد اخلاقیات پر رکھی جاتی ہے اور نت نئے قوانین بنانے کا مقصد بھی یہی یوتا ہے کہ ایک تو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو دوسرا معاشرے کو خرابیوں سے روکا جائے لیکن جس ملک میں قوانین بنانے والے پہلے سے موجود قوانین کو توڑ مروڑ کر اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں اور بےاصولیوں کی ایسی ایسی مثالیں قائم کریں کہ انسانیت شرما جائے اس معاشرے سے پھر آپ خیر کی توقع کیا کر سکتے ہیں ساری دنیا کو پتہ ہے کہ کس کس کا بازو مروڑ کر رجیم چینج کے نام پر اچھے بھلے چلتے ہوئے نظام کا بھی بیڑا غرق کیا گیا اور ملک کا بھی بیڑا غرق کر دیا گیا ساری دنیا کے علم میں ہے کہ کس طرح سندھ ہاوس میں سیاسی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو محبوس کیا گیا ان پر نوٹ نچھاور کیے گئے اور ان کی خودساختہ اپوزیشن قائم کر کے انھیں کس طرح نوازا جا رہا ہے پنجاب میں کس طرح اراکین اسمبلی کے ضمیر خریدے گئے اچھے بھلے معزز اراکین اسمبلی کو لوٹوں میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر ان لوٹوں کا جو حشر عوام نے کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو روکنے کے لیے ایک بار پھر ارکان اسمبلی کی منڈی سجائی گئی لیکن صرف 5 اراکین اسمبلی کی ہی خریدوفروخت ممکن ہو سکی

اگر جمہوریت میں اکثریت رائے کا فیصلہ ہی مقدم ہوتا ہے تو پھر اکثریت کو فیصلہ کرنے دیں اگر اکثریت اسمبلیوں کے وجود کو برقرار رکھنے میں راضی نہیں تو آپ جگاڑ لگا کر کب تک راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں اسی طرح اگر ایک جماعت کے اراکین قومی اسمبلی استعفے دے کر باہر نکلنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا قانونی حق ہے آپ زبردستی کسی کو لٹکا نہیں سکتے پہلے پہل یہ رواج تھا کہ اگر میاں بیوی کی ان بن ہو جاتی اور بیوی ناراض ہو کر میکے چلی جاتی تو خاوند بغیر پوچھے دوسری شادی کر لیتا لیکن پہلی بیوی کو طلاق نہ دیتا اس بیچاری کی ساری زندگی رول دیتا یا کم ازکم اس کی جوانی کے ایام طلاق لینے کے لیے عدالتوں ثالثی پنچایتوں میں گزر جاتی مقصد کیا ہوتا تھا کہ اگر میرے ساتھ بسیرا نہیں کرنا چاہتی تو میں کسی کے ساتھ بسنے نہیں دوں گا پھر قوانین میں ترامیم کرکے دوسری شادی کو پہلی بیوی کی اجازت سے مشروط کر دیا گیا اور ساتھ ہی عورت کو خلع کا حق دیدیا گیا پی ڈی ایم نے بھی تحریک انصاف کے ساتھ وہ والا حال کیا ہے تحریک انصاف کے استعفے دس ماہ سے لٹکا رکھے ہیں عام لوگ سوال کرتے ہیں کہ جن 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے تھے ان کے استعفے منظور کرنے کا کیا معیار تھا اس کے بعد تحریک انصاف نے متعدد بار کوشش کی کہ ان کے تمام اراکین کے استعفے اجتماعی طور پر قبول کیے جائیں لیکن سپیکر صاحب نے انفرادی طور پر تصدیق کی شرط پر روکے رکھے اب جب عمران خان نے اسمبلی میں واپس جانے کا شوشہ چھوڑا تو ساتھ ہی جان کے لالے پڑ گئے کہ اب کیا ہو گا ان کے 35 اراکین کے چپ چپیتے استعفے منظور کرکے انھیں ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا اب پی ڈی ایم کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ کن بنیادوں پر 35 اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں یا تو تمام ارکان کےاستعفے مبظور کیے جاتے یا سب کے نہ کیے جاتے بظاہر اس بارے پی ڈی ایم کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے بتایا جا رہا ہے کہ یہ اراکین ہمارے خلاف بولتے بہت زیادہ تھے، یہ لیڈر بنتے تھے،ہماری مرضی ہم جس کا چاہیں استعفی منظور کریں یہ ہماری سیاسی چال ہے،کیسا رہا سرپرائز، یہ کوئی جسٹیفکشن نہیں لوگ ان تمام تر معاملات کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں اور ایسے اوچھے قسم کے ہتھکنڈوں کا عوام پر کوئی اچھا تاثر نہیں جا رہا اس سے نفرت بڑھ رہی ہے اس کا جواب عوام کسی اور طریقے سے دیں گے غیر اخلاقی حرکتوں سے شاید اقتدار کو چند دن تک طول دیا جا سکتا ہے لیکن آخر کار جانا توعوام کے پاس ہی پڑے گا پھر کیا ہو گا