سیاستدانوں نے پاکستان کو شطرنج کا پھٹہ بنا دیا ہے کوئی ایک چال چلتا ہے تو دوسرا اسے مات دینے کے لیے کوئی اور مختلف چال چل کر کہتا ہے اب بتا بچو مزہ آیا اور اس مزے مزے میں ریاست اور عوام کا کچومر نکال دیا ہے لیکن نہ ان کا کھیل ختم ہونے کو آرہا ہے نہ انھیں عقل آرہی ہے نہ انھیں احساس ہے دوسری جانب ملک کے معاشی حالات کچھ ایسے ہیں کہ کارخانہ داروں نے خام مآل نہ ملنے کے باعث بینکوں کی جانب سے امیورٹ کے لیے ایل سیز نہ کھولے جانے پر چابیاں گورنر سٹیٹ بینک کے حوالے کر دی ہیں کہ ہم سے سے کارخانے نہیں چل رہے آپ سنبھال لیں کئی تاجر موجودہ صورتحال سے اسقدر پریشان ہیں کہ زرا سی بات پر آبدیدہ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے حکومت نے ایک قسم کی غیر اعلانیہ مالیاتی ایمرجنسی لگا رکھی ہے بینکوں میں جن کے فارن کرنسی اکاوئنٹ ہیں ان کو ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں ہر قسم کی امپورٹ پر پابندی لگائی ہوئی ہے بینک ڈالر نہیں دے رہے جو مال پاکستان کی بندرگاہ پر موجود ہے اس کی بھی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ریلیز نہیں کیا جا رہا ایک خبر یہ بھی ہے کہ بینک فیول درآمد کرنے والی کمپنیوں کی ایل سیز بھی نہیں کھول رہے پاکستان کے پاس صرف فیول کے دو بحری جہاز ہیں ایک پاکستان پہنچ چکا ہے اور دوسرا پہنچنے والا ہے اگر فیول منگوانے والی کمپنیوں کی ایل سیز نہ کھولیں تو فروری کے مہینے میں پاکستان میں فیول نایاب ہو جائے گا آپ کو یاد ہوگا کہ سری لنکا میں بھی فیول نہ ملنے کی وجہ سے گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی ہو گئیں تھیں اور جو حشر ہوا تھا وہ سب آپ کے سامنے ہے آئی ایم ایف ہمیں تاحال گھاس نہیں ڈال رہا سعودی عرب اور ورلڈ بینک سے جو فوری رقوم ملنے کی توقع تھی انھوں نے بھی اسے معاشی اصلاحات کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اب اگر آئی ایم ایف ہم پر مہربانی کربھی دے تو مہنگائی کا اتنا خوفناک طوفان آئے گا کہ رہ رب دا ناں حکومت نے نئے ٹیکس لگانے کے لیے آرڈیننس تیار کر لیا ہے بجلی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ بھی ہو چکا بس کسی بھی مہنگائی بم کا اعلان کر دیا جائے گا ان تمام تر حالات سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا حکومت صرف ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے کچھ نہیں ہو گا ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن قوم کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے کہ ہمیں بتائیں آپ کے پاس وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے آپ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیں گے ہم پہلے ہی تشویش میں مبتلا قوم کو مزید ڈرانا نہیں چاہتے لیکن اتنا ضرور بتا دیں کہ حالات درست نہیں پتہ نہیں کسی بھی وقت ہمارے ساتھ کیا ہو جائے مجھے متعدد قارئین کے فون آ رہے ہیں جو اپنی تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ کس چیز کا انتظار کیا جا رہا ہے ادارے کیوں خاموش ہیں قوم کو حقیقت سے کیوں آگاہ نہیں کیا جا رہا قوم سے کیوں چیزیں چھپائی جا رہی ہیں عدالت کیوں سوموٹو لے کر حقیقت قوم کے سامنے نہیں رکھتی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے کیوں نہیں پوچھا جارہا کہ ہماری اقتصادی صورتحال کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں لوگوں میں خوف پایا جا رہا ہے کہ وہ نہ ہو معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا کر ہاتھ کھڑے کر دیے جائیں کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قوم کو اعتماد میں لیں حقیقت قوم کے سامنے رکھی جائے اور وہ اقدامات بھی قوم کے سامنے رکھے جائیں جن کی بنیاد پر قوم کو کہا جا رہا ہے کچھ نہیں ہو گا مجھے ایک قاری ادریس خان کا فون آیا انھوں نے ایک بہت اچھی تجویز دی بہت ساری باتیں انھوں نے بھی دوسروں کی طرح اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن ان کی تجویز قابل عمل اور بڑی کارگر ثابت ہو سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چونکہ توانائی کے بحران کا سامنا ہے ہم مہنگے فرنس آئل سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اگر کسی غیرملکی کمپنی سے بات کی جائے یا کسی پاکستانی سرمایہ کار کو دعوت دی جائے اس کے ساتھ معاہدہ کیا جائے کہ پاکستان میں 3اور5 مرلہ کے تمام گھروں کو سولر پینل لگا کر انھیں سولر انرجی پر منتقل کر دیا جائے اور جتنا وہ ماہانہ بجلی کا بل دیتے ہیں اس کے برابر ان سے ماہانہ اقساط میں اس سولر پینل کی لاگت وصول کر لی جائے تو اربوں روپے کی بجلی کی بچت ہو سکتی ہے مہنگے تیل کی امپورٹ سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں اور سال ڈیڑھ سال کی قسطوں کے بعد غریبوں کو مفت بجلی مہیا ہو گی اسی طرح کے دیگر پراجیکٹ بنائے جا سکتے ہیں پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو چھوٹے چھوٹے پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی جا سکتی ہے خاص کر بجلی پیدا کرنے کی قدرتی سائٹس پر سرمایہ کاروں کو سہولتیں دے کر بجلی کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کی جا سکتی ہے ہمارا زرعی ملک ہے خبر تھی کہ ہم نے پچھلے 6 ماہ میں چار ارب ڈالر سے زائد مالیت کی غذائی اشیاء امپورٹ کی ہیں اس چار ارب ڈالر میں سے ہم نے 50 کروڑ ڈالر ہی اپنے کسانوں پر لگایا ہوتا انھیں سبسڈی دے کر ان اجناس کی پیداوار کی طرف راغب کیا ہوتا تو ہم غذائی اشیاء میں خود کفیل ہوتے اب بھی وقت ہے ہمیں اپنی زراعت پر توجہ دینی چاہیے ہم زراعت پر توجہ دے کر 6ماہ میں بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں اور دوچار سال میں کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ سے اپنی جان چھڑوا سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرے گا کون جہاں فیصلہ کرنے والی قوتوں کا ہر معاملہ میں مالی مفاد ہو گا ان کے کمشن ہوں گے وہاں ملک وقوم کا مفاد پس پشت ڈال دیا جائے گا جہاں سیاستدان اپنی لڑائیوں میں مصروف ہوں گے وہاں پالیسیاں نہیں بنیں گئیں وہاں سیاسی چالیں ہی چلی جائیں گی خدارا قوم کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ایک دوسرے کو چکمے دینے پر لگے ہوئے ہیں خدارا کچھ تو سوچ لیں
196