164

انسانی تہذہب کے ارتقا میں دریاؤں کا کردار

انسانی معاشرے دریاؤں کے کنارے آباد ہونا شروع ہوئے اور انسانی تہذیب نے دریاؤں کے اطراف سے اپنے ارتقائی مراحل کا آغاز کیا۔ اس لئے دریا اور زندگی ابتدا سے ہی لازم و ملزوم ہیں۔ دریائے نیل کے کناروں کی قدیم تہذیب اور تمدن انسانی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے۔ دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جس کی لمبائی 6650کلومیٹر ہے جس کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا دریا ایمازون ریور ہے جس کی طوالت 6ہزار 4سو کلومیٹر بتائی جاتی ہے۔ یورپی ممالک کے بیشتر دارالحکومتوں میں دریاؤں کی گزرگاہیں ہیں۔ لندن شہر بھی دریائے تھیمز(RIVER THAMES)کے کناروں پر آباد ہونا شروع ہوا۔ یہ دریا کئی ہزار برس قدیم ہے اور اس کی لمبائی 346کلومیٹر ہے۔ اس اعتبار سے یہ انگلینڈ کا سب سے طویل دریا ہے جو اس ملک کی رعنائی میں اضافہ کرتا ہے اور خاص طور پر یہ دریا لندن شہر کی کشش اور خوبصورتی کی علامت ہے۔ اس دریا کا منبع گلاسٹر شائیر کا علاقہ سیون سپرنگز(SEVEN SPRINGS)ہے۔ تھیمز ریور انگلینڈ کی 7کاؤنٹیز ولٹشائر، آکسفورڈ شائر، گلاسٹر شائر، برکشائر، سرے، بکنگھم شائر اور گریٹر لندن سے گزر کر نارتھ سی(NORTH SEA)میں جا گرتا ہے۔ اس دریا کو عبور کرنے کے لئے مختلف مقامات پر دو سو پل تعمیر ہو چکے ہیں جبکہ لندن میں اس کے نیچے ایک سرنگ بھی بنی ہوئی ہے جسے بلیک وال ٹنل کہتے ہیں۔ اس ٹنل کے رستے ہر طرح کی ٹریفک گزرتی ہے۔ تھیمز ریور میں 80چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی ہیں اور اس دریا میں درجنوں اقسام کی مچھلیاں اور تقریباً ڈیڑھ سو طرح کی مختلف آبی حیات پائی جاتی ہے۔ تھیمز ریور کا پانی اگرچہ مٹیالہ ہے لیکن اسے صاف کر کے لندن کے دو تہائی لوگوں کو پینے کے لئے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس دریا کی گہرائی زیادہ سے زیادہ 20میٹر اور کم سے کم ڈیڑھ میٹر ہے۔ 1928ء اور 1953ء میں طغیانی اور سیلاب کی وجہ سے دریائے تھیمز پر بہت سے حفاظتی بند باندھے گئے اور اس کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے 1974ء میں تھیمز بیرئیر کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ مئی 1984ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔یہ بیرئیرز 20میٹر بلند اور 520میٹر لمبے ہیں۔ ایسٹ لندن میں تعمیر کئے گئے ان بیرئیرز پر اس وقت 534ملین پاؤنڈ لاگت آئی تھی۔ برطانیہ اور خاص طور پر لندن آنے والے سیاحوں کی اکثریت بڑی بڑی آبی کشتیوں یعنی کروز کے ذریعے ریور تھیمز اور اس کے دونوں اطراف میں تعمیر کی گئی تاریخی عمارات اور پُلوں کا نظارہ کرتی ہے۔ دریا کے رستے سے برطانوی دارالحکومت کی سیر ایک دلچسپ اور معلوماتی سفر ہوتا ہے جس میں ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کو دریا کے کناروں پر آباد لندن شہر کے بارے میں حیران کن ثقافتی اور تاریخی معلومات سے محظوظ کرتے ہیں۔ لندن شہر کو سڑکوں اور ریل گاڑیوں کی بجائے دریائی گزرگاہوں سے دیکھنا واقعی ایک نہ بھولنے والا تجربہ ہوتا ہے۔دریائے تھیمز چونکہ لندن شہر کے تاریخی اور ارتقائی مراحل کا گواہ ہے اس لئے اس دریا کو ہر دور میں خصوصی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی پہلی عمارت 1016ء میں اسی دریا کے کنارے پر تعمیر کی گئی۔ 1834ء میں آگ لگنے کی وجہ سے اس عمارت کو مسمار کر کے 1840ء میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور اس کے ایک کونے پر ایک 316فٹ بلند مینار بنایاگیا جس میں ایک بہت بڑی گھڑی نصب ہے۔ یہ بلند و بالا ٹاور بگ بین(BIG BEN) کہلاتا ہے جس کی تعمیر مئی 1859ء میں مکمل ہوئی۔ دریائے تھیمز کے کنارے پر ایستادہ یہ ٹاور لندن کی پہچان ہے جس میں ہر گھنٹے بڑی بڑی گھنٹیوں کی آواز اور ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ دریائے تھیمز پر لندن کے مشہور ٹاور برج کی تعمیر کا آغاز جون 1886ء میں ہوا۔ بڑے بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لئے اس پُل کو کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ سسپنشن برج قدیم طرز تعمیر کا انوکھا نمونہ ہے۔ دریائے تھیمز کی حفاظت اور اس کو آلودگی سے بچانے کے لئے خصوصی پولیس متعین ہے جو بوٹس(انجن والی تیز رفتار کشتیوں)میں گشت کرتی رہتی ہے۔ برطانیہ اور لندن کے مختلف روئنگ کلبز کی رنگ برنگی کشتیاں بھی کنارے پر کھڑے لوگوں کو دعوت نظارہ دیتی رہتی ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں ہزاروں دریا ہیں اور سب سے زیادہ دریا بنگلہ دیش(سابق مشرقی پاکستان) میں ہیں جن کی تعداد تقریباًسات سو بتائی جاتی ہے۔ دنیا میں بڑے اور قابل ذکر دریا 165ہیں جن میں سے دریائے سندھ بھی ایک اہم دریا ہے جس کی لمبائی 3180کلومیٹر ہے۔ یہ دریا اور اس کے کناروں پر آباد معاشرتی تہذیب برصغیر کا بہت اہم اور تاریخی ورثہ ہے جس پر انگریزی اور اردو میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اس ضمن میں مشہور ادیب اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب شیر دریا پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب معلومات کا خزانہ اور مصنف کے شاندار طرز تحریر کا مجموعہ ہے۔ رضا علی عابدی نے دریائے سندھ کے منبع سے بحیرہ عرب تک دونوں کناروں پر آباد عام لوگوں سے مل کر اس دریا سے وابستہ داستانوں، سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات کی تلخیوں کو قلمبند کیا ہے۔ میں جب دریائے تھیمز کو دیکھتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ میرے آبائی شہر بہاول پور سے بھی ایک دریا گزرتا ہے۔ دریائے ستلج جس کے نام پر ساؤتھ ایسٹ لندن میں ایک سڑک ستلج روڈ بھی ہے۔ میرے شہر کا یہ دریا ایک زمانے میں سال بھر پورے طمطراق سے بہتا تھا۔ گرمیوں کی شام کو لوگ ڈوبتے سورج اور اس کے ریلوے پُل کا نظارہ کرنے کے لئے یہاں آیا کرتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ اس دریا کی روانی میں تعطل آنے لگا۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانہ طالبعلمی میں میرا دوست رانا حبیب احمد اور میں رمضان کا آخری روزہ افطار کرنے کے لئے خوردونوش کا سامان لے کر ستلج کا رخ کرتے تھے جہاں دریا کے کنارے ٹھنڈی ریت پر چادر بچھا کر روزہ کھولنے اور نماز کی ادائیگی کا جو لطف آتا تھا وہ آج بھی پر کیف اور نہ بھولنے والی یادوں کا حصہ ہے۔اسی طرح 90ء کی دہائی کے آغاز میں جب نامور شاعر مرتضیٰ برلاس بہاول پور ڈویژن کے کمشنر تھے تو انہوں نے دریائے ستلج کے کنارے ریسٹ ہاؤس کے لان میں گرمیوں کی ایک چاند رات میں محفل موسیقی کا اہتمام کیا تھا۔ اس محفل میں عابدہ پروین نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔چاندنی رات میں دریا کے کنارے گنگناتی ہواؤں اور عابدہ پروین کی گائیکی نے ایسا سحر طاری کیا کہ مدتوں بعد بھی سُر سنگیت کی وہ خوشگوار محفل یاد ہے۔ دنیا بھر کے دریا اپنے اندر ماضی کی کہانیاں اور داستانیں سمیٹے بہتے اور موسموں کی شدتیں سہتے رہتے ہیں۔ دریا کبھی نہیں مرتے، وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں اور سمندروں سے ملاپ کے لئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ بہاول پور ڈویژن میں 60لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ریگستان(چولستان) میں آج بھی سیپوں اور گھونگوں کے شکستہ خول ملتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس ریگزار سے بھی کبھی دریا گزرتا تھا۔ دریائے سرسوتی یا دریائے گھاگھرا -مجھے بہتے ہوئے دریا ہمیشہ اچھے لگتے ہیں۔اِن کے بہاؤ میں ایک عجیب شان ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ اپنے پانیوں کو ان کی منزل کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ اگر آپ کسی دریا کے پُل پر بیٹھ کر بہتے ہوئے پانی کو مسلسل دیکھتے رہیں تو کچھ دیر بعد ایسا لگتا ہے کہ پانی کا بہاؤ تھم گیا ہے اور پُل چلنے لگا ہے۔

یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے

بیٹھے ہیں پُل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر (احسان دانش)

جب سے اس روئے زمین پر پہاڑ تخلیق ہوئے ہیں اور اُن پر برف جمنے اور پگھلنے کا سلسلہ جاری ہے تب سے دریا بلندی سے نشیب کی طرف رواں دواں ہیں۔ کہنے کو تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا (قتیل شفائی)

دریاؤں کی آخری منزل سمندر ہی ہے لیکن سمندر میں گر کر دریا اور وسعت اختیار کر لیتے ہیں۔ سمندر میں جذب ہونے سے پہلے دریاؤں کا بہاؤ، اضطراب اور طغیانی دیدنی ہوتی ہے۔ سمندر کا حصہ بننے سے پہلے یہ دریا جہاں جہاں سے گزرتے ہیں وہاں صرف اردگرد کی بے آب و گیاہ زمینوں کو ہی سرسبز نہیں کرتے بلکہ وہاں کے انسانوں کی زندگی کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں بھی دریاؤں کو زندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ان میں طغیانی اور سیلاب کو آبِ رواں کی ناراضی کا استعارہ خیال کیا جاتا تھا۔چند برس پہلے پاکستان گیا تو وہاں دریائے ستلج اور دریائے راوی میں بہتے ہوئے پانی کی بجائے ریت کے ٹیلوں کو دیکھ کر دِل بہت افسردہ ہوا اور یوں لگا کہ دریا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭