405

دیامر کا المیہ

چلاس میں ایک مافیا ایسا بھی ہے جو ہمیشہ ہر نئے آنے والے ڈپٹی کمشنر کو کنٹرول کرنے کے درپے ہوتا ہے، اگر نیا ڈپٹی کمشنر انکے کنٹرول میں آگیا تو ٹھیک نہیں تو طرح طرح کے پروپیکنڈے اور سازشیں شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیامر آج سب سے زیادہ پسماندہ ضلع ہے، اسکی ایک وجہ ہمارے منتخب ممبران اسمبلی بھی ہیں، یہ عموماً الیکشن کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوجاتے ہیں۔ دیامر بھاشہ ڈیم کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر کا عہدہ کا عہدہ انتہائی پرکشش اور منفرد ہوگیا ہے کہ کیونکہ ڈیم کے تمام معاوضے اور دیگر تمام معاملات بطور کلکٹر ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہوتے ہیں، اسلئے مافیا نہیں چاہتی کہ کوئی ایماندار اور قابل آفیسر یہاں آئے جس سے انکی دوکانداری بند ہو جائے۔

چلاس میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب صرف نیشنل بنک قراقرم کوآپریٹو بنک موجود ہوا کرتا تھا لیکن جیسے ہی دیامر بھاشہ ڈیم کے معاوضے شروع ہوئے اب تو ہر بازار کی ہر گلی میں دو دوکانوں کی رپیئر کرکے بنک بنا دیا گیا ہے جس سے علاقے میں بنکوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ یہ اچھی بات ہے زیادہ بنک بننے سے مقامی لوگوں کو روزگار ملا ہے لیکن روزگار انکو ملا جنہوں نے اپنے ذاتی بنک اکاؤنٹس میں زیادہ پیسے جمع کروائے ہیں اور جنہوں نے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ پیسے والے لوگوں کے بنک میں اکاؤنٹ کھلوائے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں ڈیم کے پیسے سرکاری کلکٹر کے اکاؤنٹ سے نیشنل کے بنک کے علاوہ بہت سارے پرائیویٹ بنکوں میں بھی تھے جس میں زبان زد عام تھا کہ پرائیویٹ بنک کمیشن اور تحفوں کی صورت میں نوازتے ہیں، لیکن اب ڈیم کے تمام سرکاری رقم ڈپٹی کمشنر سعد بن اسد صاحب نے نیشنل بنک میں لایا ہے تو انکے خلاف پروپیکنڈوں کا آغاز ہوا ہے۔

سعد بن اسد صاحب جب دیامر بطور ڈپٹی کمشنر آئے تو کچھ ایسے مسائل تھے جو نہ صرف ڈیم کے مستقبل کے لئے رکاوٹ تھے بلکہ علاقے کی امن کے لئے بھی مستقل خطرہ تھے، جس میں تھور ہربن تنازعہ، گریجویٹ الائنس واپڈا ایشو اور چولہا پیمنٹسن آبادکاری کا مسئلہ شامل تھے۔

سعد بن اسد صاحب نے کامیابی سے انتہائی مہاورت اور حکمت عملی سے پہلے دونوں مسائل حل کرائیں اور آبادکاری چولہا پیمنٹس بھی شفاف طریقے سے تکمیل کی جانب کامیابی سے گامزن ہے۔ اسکے علاوہ دیامر کے جنگلات کی کٹائی روکنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا اور سیاحت کی فروغ کے لئے ست داس فیسٹول کو کامیابی سے منعقد کرانا اور دیامر کے دیگر قبائل میں بھی ہم آہنگی اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرانے کے لئے مخلصانہ کوششیں قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔ دیامر جیسا علاقہ اور میگا پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے سعد بن اسد جیسے آفیسران کی تعیناتی نیک شگون اور خوش قسمتی ہے۔