383

کرنسی نوٹوں کا استعمال فائدہ کم نقصان زیادہ

پاکستان میں کرونا وائرس سے بچنے کیلئے جتنی مرضی احتیاطیں کر لیں کرنسی نوٹوں کے استعمال اور انہیں انگلی کیساتھ تھوک لگا کر گننے کی عادت سے ساری احتیاطیں دھری کی دھری رہ سکتی ہیں، وائرس نوٹوں کی کھردری سطح سے ڈائریکٹ زبان پر آسانی کیساتھ منتقل ہوسکتا ہے، پاکستان میں بڑھتی مہنگائی اور روپے کی کم ہوتی ہوئی قدر کی وجہ سے تقریباً ہر کسی کے بٹوے میں وافر تعداد میں کرنسی نوٹ موجود ہوتے ہیں، جنہیں فارغ اوقات میں یا ہر خریداری کے بعد تھوک والی انگلی سے گنا بھی جاتا ہے، زیادہ تر نوٹ پرانے ہوتے ہیں اور سینکڑوں ہاتھوں اور تھوک والی انگلیوں سے گزر کر آئے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اے ٹی ایم مشین سے بھی زیادہ تر استعمال شدہ نوٹ ہی نکلتے ہیں، جنہیں کیبن کے اندر ہی مشین کی ممکنہ غلطی سے بچاؤ کیلئے تھوک شدہ انگلی سے گن کر بٹوے میں رکھ لیا جاتا ہے۔

کرنسی نوٹوں کو سینیٹائزر سے دھونا اور سکھانا ایک مشکل کام ہے، آپ کچھ کر لیں انہیں بغیر دستانوں کے ہاتھ لگانا ہی پڑتا ہے، بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپکی جیب میں سینیٹائزر یا چھوٹی ڈیٹول کی شیشی ضرور ہونی چاہئیے، نوٹوں کو ہاتھ لگانے کے بعد ڈیٹول ہاتھوں پر مل لیں، گننے کیلئے بھی انگلی پر تھوک کی بجائے ڈیٹول کا استعمال کریں، دنیا ڈیجیٹل کرنسی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے لیکن پیارے پاکستان میں اگلے سو سال تک بھی نوٹوں سے چھٹکارا ملتا نظر نہیں آرہا، ہر بنک نے اپنے اپنے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز ضرور بنا رکھے ہیں لیکن سوائے بڑی دوکانوں اور بڑے شاپنگ سنٹرز کے ان کارڈز کا استعمال کرنا مشکل نظر آتا ہے، عام دوکان داروں اور چھوٹے مرچنٹس کے پاس کریڈٹ کارڈ مشین نہیں ہوتی اور ٹیکس سے بچاؤ کیلئے کیش پے منٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر ادائیگیاں کارڈز سے ہی کی جاتی ہیں، اس سے انسان نہ صرف دوسروں کے استعمال شدہ نوٹوں کو ہاتھ لگانے، انہیں گننے اور اپنے پاس رکھنے کے مشکل کام سے بچ جاتا ہے بلکہ چوری اور فراڈ کے عمل سے بھی بچ جاتا ہے، یورپی ملک سویڈن جو ڈیجیٹل کرنسی میں دنیا میں سب سے آگے ہے، یہاں تقریباً نوے سے پچانوے فیصد ادائیگیاں کارڈز اور اون لائن ایپلی کیشنز سے ہی کی جاتی ہیں، شہریوں کی اکثریت کو ملک میں موجود کرنسی نوٹوں کے رنگ اور اس پر موجود تصاویر تک کا علم نہیں ہوتا، لوگوں کے پاس نوٹوں والے بٹوے کی بجائے موبائل فون کے کور میں چند پلاسٹک کارڈز ہوتے ہیں جو کھوکھے والے سے لے کر بڑے سے بڑے شاپنگ مولز میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قابل قبول ہوتے ہیں، اون لائن ادائیگیاں کرنے سے پہلے موبائل پر میسیج میں ایک کوڈ آتا ہے، جسے استعمال کرنے پر ہی ادائیگی مکمل ہو پاتی ہے، ویزہ اور ماسٹر کارڈز سے ایئر لائن ٹکٹ خریدنے پر سفری انشورنس مفت ہوجاتی ہے، مطلوبہ خدمات نہ ملنے کی صورت میں صرف ایک کلک سے ڈسپیوٹ اوپن ہوجاتا ہے اور غلط بیانی ثابت ہونے پر ادا کی گئی رقم بھی کارڈ میں واپس ہوجاتی ہے، کئی بنکس بغیر کسی ماہانہ یا سالانہ فیس کے نہ صرف کارڈ مفت بنا کر دیتے ہیں بلکہ ان سے خریداری کرنے پر ایک فیصد بونس بھی دے دیتے ہیں، راقم ایسے ہی بونس پوائنٹس سے مفت ریٹرن ٹکٹ لیکر امریکہ، اسرائیل فلسطین اور دوبئی سمیت کئی ممالک کا سفر کرچکا ہے?، بنک مرچنٹس سے ڈھائی تین فیصد فیس چارج کرتے ہیں اور اسی فیس سے ایک آدھ فیصد صارف کو واپس بھی کردیتے ہیں تاکہ صارف خوش ہو کر مزید خریداری کرے اور بنک کی آمدن بڑھے، اس عمل سے مرچنٹ، بنک اور صارف تینوں کا فائدہ ہوجاتا ہے، لیکن اگر صارف عقل مندی سے کام نہ لے تو اسکا بیڑہ غرق ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی، جو لوگ اپنی آمدنی دیکھے بغیر کارڈ کی لمٹ پر خریداری کرتے ہیں وہ بعد میں سولہ فیصد تک کے سود کے ٹیکے کے ساتھ اقساط میں پیسے واپس کرتے ہیں، بنک کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور کئی دفعہ کارڈ کے ٹکڑے کر کے پھینک دیتے ہیں، جو لوگ اپنی آمدنی دیکھ کر خرچ کرتے ہیں وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں، راقم پچھلے بیس سال سے کریڈٹ کارڈز استعمال کررہا ہے، ویزہ، ماسٹر اور امریکن ایکسپریس سمیت سب کارڈز موجود ہیں، آج تک ایک پیسہ بھی بنکوں کو سود کی مد میں نہیں دیا، ہمیشہ اپنی آمدنی دیکھ کر خریداری کی ہے اور کارڈز کے ماہانہ بل کو پرسنل اکاؤنٹ سے آٹو پے پر لگانے سے کسی قسم کے جرمانے کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا، بنک والے اپنا دماغ استعمال کرسکتے ہیں تو صارف کیوں نہیں کرسکتا?۔

#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں