131

ولیم شیکسپیئر کا ٹاؤن

ویسے تو لندن کی رونق، گہما گہمی اور دل کشی دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے ایک خاص کشش رکھتی ہے لیکن اس شہر کے مضافات میں ایک ٹاؤن ایسا بھی ہے جو صرف ایک شخصیت کے حوالے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور اور انگریزی ادب اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ٹاؤن سٹریٹفورڈ اپان ایوون STRATFORD UPON AVONکہلاتا ہے جو لندن سے بذریعہ سڑک تقریباً سوا دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ موٹر وے سے اتر کر اس ٹاؤن کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہر طرف ہریالی، فارم ہاؤس، جنگلات اور پگڈنڈیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ویک اینڈ پر اس ٹاؤن کی طرف جانے والی تنگ سڑک پر سیاحوں کی گاڑیاں ایک قطار میں رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ٹاؤن اس لئے منفرد اور پرکشش ہے۔ یہاں انگریزی کا بے مثال ڈرامہ نگار اور شاعر ولیم شیکسپیئر پیدا ہوا تھا۔ وارک شائر کاؤنٹی کے اس ٹاؤن کی کل آبادی تقریباً 31ہزار افراد پر مشتمل ہے اور اس ٹاؤن سے دریائے ایون گزرتا ہے جس سے کئی نہریں نکالی گئی ہیں۔ اِن آبی گزرگاہوں کو کشتی رانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ٹاؤن کی شیکسپیئر سے نسبت کی وجہ سے ہر سال تقریباً 25لاکھ لوگ سیاحت کے لئے یہاں آتے ہیں۔ ولیم شیکسپیئر ایسا خوش نصیب ادیب اور شاعر ہے جس کے لکھے ہوئے 39ڈرامے اور 154نظمیں نہ صرف انگریزی زبان و ادب کا سرمایہ اور اثاثہ ہیں بلکہ اِن تخلیقات کے سینکڑوں زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ انگلینڈ کے قومی شاعر کا درجہ حاصل کرنے والے ولیم شیکسپیئر (1564-1616ء) نے بہت بھرپور زندگی گزاری اور اپنے بعد انگریزی ادب پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ 25برس پہلے جب میں پہلی بار سٹریٹفورڈ اپان ایوون آیا تھا تو اس وقت پاکستان سے آئے ہوئے اردو کے نامور شاعروں کا قافلہ میرے ہمراہ تھا جن میں سے بیشتر اہل قلم کو اس ٹاؤن کی سیاحت اور شیکسپیئر کا گھر دیکھنے سے زیادہ دریائے ایون میں چپو والی کشتیاں چلانے اور موٹر بوٹ کی سیر میں دلچسپی تھی۔

گذشتہ دِنوں جب میں دوبارہ اس ٹاؤن کی سیاحت کے لئے گیا تو اس کی خوشنمائی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ سیاحوں کی سہولت کے لئے طرح طرح کے اہتمام کئے گئے تھے۔ ویک اینڈ اور ستمبر کی خوشگوار دھوپ کی وجہ سے سٹریٹفورڈ میں بہت رونق اور ٹاؤن کے ہر حصے میں دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی خوب چہل پہل تھی۔ جس کار پارک میں مجھے گاڑی ٹھہرانے کی جگہ ملی وہ بٹر فلائی فارم کے ساتھ ہی تھا۔ ٹکٹ لے کر جب میں اس تتلی گھر میں داخل ہواتو اندر کا ماحول یکسر مختلف تھا۔ پلاسٹک کی اونچی چھتوں والے اس فارم میں مختلف اقسام کے ایسے پودے اُگے ہوئے تھے جنہیں نمی اور ایک خاص درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ اِن پودوں کے سرسبز پتوں اور چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے پھولوں پر ہر طرف تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ اپنی فیملیز کے ساتھ آنے والے چھوٹے بچے اتنی بڑی تعداد میں اپنے ارد گرد اڑتی ہوئی تتلیوں کو دیکھ کر ایک عجیب طرح کی خوشگوار حیرانی میں مبتلا تھے۔ فارم کے اندر جگہ جگہ اِن چھوٹی بڑی رنگین تتلیوں کے بارے میں معلومات اور ان کو نہ چھونے کی ہدایات درج تھیں۔ فارم کے درمیانی حصے میں ایک میز پر کچھ پھل بھی کاٹ کررکھے ہوئے تھے جن پر کچھ تتلیاں بیٹھی اُن کے ذائقوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور کئی چھوٹے بچے اس میز کے گرد جمع ہو کر تتلیوں کو اتنے قریب سے دیکھ کر بے حد خوش دکھائی دے رہے تھے اور مائیں اپنے اِن بچوں کو بار بار تتلیوں کے نازک پروں کوچھونے سے منع کر رہی تھیں۔ میں جب اس بٹر فلائی فارم سے نکلا تو سامنے ہی دریائے ایون بہہ رہا تھا جس کے کنارے پر ایک بہت بڑا پہیہ نما جھولا سٹریٹفورڈبگ وہیل سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔جس کی اونچائی 131 فٹ ہے۔یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ برطانوی دارالحکومت میں دریائے تھیمز کے کنارے پر ”لندن آئی“ ہے۔ میں دریائے ایون کا پل عبور کر کے دوسری طرف پہنچا تو سامنے ایک بہت بڑاسبزہ زار تھا جسے ایک پارک کی شکل دے دی گئی تھی۔ پارک کے ایک کونے میں رائل شیکسپیئر تھیٹر کی شاندار عمارت ایستادہ تھی جبکہ دوسری طرف ایک چبوترہ بنا کر وہاں شیکسپیئر کے مشہور ڈراموں کے کرداروں کے مجسمے آویزاں کئے گئے تھے۔ بہت سے لوگ اس سبزہ زار میں دریا کے کنارے لگے ہوئے بینچوں پر بیٹھے راج ہنس کے جوڑوں اور بطخوں کو اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ اس پارک میں ٹاؤن کی طرف جانے والے رستے پر ایک بہت بڑی مارکیٹ کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں جیولری اور قیمتی پتھروں سے لے کر ملبوسات گھر کی سجاوٹ کا سامان اور طرح طرح کے کھانے پینے کی اشیاء فروخت ہو رہی تھیں۔ 1196ء میں جب سٹریٹفورڈ کو ٹاؤن کا درجہ دیا گیا تھا تو یہاں ہفتہ وار ایک مارکیٹ لگا کرتی تھی جس مارکیٹ کا میں ذکر کر رہا ہوں شاید یہ اُسی کا تسلسل ہے۔ اس مارکیٹ کے ایک فوڈ سٹال پر انڈونیشیا کے حلال کھانے دستیاب تھے جس کی وجہ سے میں زندگی میں پہلی بار انڈونیشیا کے کھانوں سے لطف اندوز ہوا۔ اس پارک سے نکل کر میں نے ہینلی سٹریٹ (Henley Street) کا رخ کیا جہاں وہ گھر موجود ہے جس میں ولیم شیکسپیئر نے جنم لیا تھا۔ اس گھر کو اب ایک میوزیم کی حیثیت حاصل ہے جسے دیکھنے کے لئے آنے والوں کی تعداد اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس گھر کے سامنے ولیم شیکسپیئر کا ایک شاندار مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس کے ساتھ تصاویر بنوانے والے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس گھر کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک گِفٹ شاپ ہے جہاں شیکسپیئر سے متعلق کتابوں کے علاؤہ دیگر اشیاء خریدنے والوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ ہینلی سٹریٹ کے چائے خانے، کافی بار اور ریستوران ویک اینڈ پر سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں۔ اس ٹاؤن میں شیکسپیئراور اس کے خاندان سے متعلق ہر چیز کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ شیکسپیئر کی شادی اینی ہیتھاوے سے 1582ء میں ہوئی تھی۔

شیکسپیئر کا فیملی ہوم اینی ہیتھاوے کا ٹیج کہلاتا ہے۔ اس گھر اور اس سے ملحقہ باغ کو دیکھنے کے لئے ہر ہفتے ہزاروں سیاح سٹریٹفورڈ کا رخ کرتے ہیں۔ لندن آنے والے ایسے سیاحوں کی بڑی تعداد جنہیں تاریخ، انگریزی زبان و ادب اور شیکسپیئر کی زندگی سے متعلق حقائق جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے وہ سٹریٹفورڈ اپان ایوون ضرورآتے ہیں۔ برطانوی حکومت اور اس کے اداروں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مشاہیر اور اُن کی یادگاروں کو محفوظ رکھنے اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ سٹریٹفورڈ کا حسن انتظام دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ ولیم شیکسپیئر کتنا خوش نصیب انسان تھا کہ اُس نے دریائے کے کنارے پر واقع اس شاندار ٹاؤن میں زندگی بسر کی اور اب اس ٹاؤن کی ہر رہ گزر پر اس کی یادوں کے نقوش ثبت ہیں۔ عظیم ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کو پرندوں، درختوں اور مناظرِ فطرت سے بہت لگاؤ تھا۔ اسی لئے اس نے پوری زندگی اپنے آبائی ٹاؤن میں گزاری اور گوشہ نشین ہونے کے بعد بھی وہ سٹریٹفورڈ میں ہی رہا۔ دنیا کے بیشترفطری تخلیق کاروں کو فطرت اور قدرت کی تخلیقات میں دلچسپی ہوتی ہے اور وہ قدرتی منظروں میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مناظرِ فطرت ہر انسان اور بالخصوص اہل قلم کو بہت کچھ سوچنے، غور کرنے اور ان کے بارے میں لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔میں جب ہینلی سٹریٹ میں کھڑا اس قدیم عمارت کو دیکھ رہا تھا جہاں شیکسپیئر نے جنم لیا تھا تو میری نگاہ اس عمارت کے باغیچے کی طرف گئی جہاں ایک درخت پر چھوٹے چھوٹے سرخ اور سیاہی مائل پھل لگے ہوئے تھے۔ غور سے دیکھا تو یہ شہتوت کا درخت تھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ شیکسپیئر نے اپنی زندگی میں اس گھر کے باغیچے میں شہتوت (MULBERRY) کا پیڑ لگایا تھا جو 1770ء تک اس گارڈن میں موجود رہا۔ پھر اس کی کچھ شاخوں کو کاٹ کر انہیں محفوظ کر کے نئی قلمیں تیار کی گئیں اور ان قلموں کو پھر سے اس باغیچے میں اُگایا گیا۔ اگر آپ برطانیہ میں رہتے ہیں یا برطانیہ کی سیاحت کے لئے آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سٹریٹفورڈ اپان ایوون ضرور جائیں۔ یہ ایک ایسا تاریخی ٹاؤن ہے جہاں سیاحوں کے لئے دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ شیکسپیئر کے حوالے سے جس طرح یہاں تاریخ کو محفوظ کیا گیا اور اس جگہ کو باہر سے آنے والے لوگوں کے لئے پرکشش بنایا گیا ہے ان سب حوالوں کا مشاہدہ کر کے آپ کی طبیعت سرشار ہو جائے گی۔

٭٭٭