270

سماجی انصاف اور سو فیصد تعلیم کے بغیر ملکی ترقی ناممکن

آج ہم جس دنیا میں آباد ہیں یہ کرہ ارض ٹھیک ایک سو برس قبل یعنی 1921 سے پہلے تک صرف 63 ممالک پر مشتمل تھی اور اب اس دنیا کے نقشے پر 195 ممالک موجود ہیں جن میں سے 193 اقوام متحدہ کے باقاعدہ رکن ہیں۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران ہماری اس دنیا نے بہت سے ارتقائی مراحل طے کئے، وباؤں ، زلزلوـں، طوفانوں، سیلابوں، جنگوں اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا کیا، ٹیکنالوجی کی ناقابل یقین ترقی کی بدولت ہروہ سہولت ہماری زندگی کا حصہ بن گئی جس کا ایک صدی پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔ آنے والے سوسال یعنی ایک صدی بعد یہ دنیا کیسی ہو گی؟ اس پر غور کرنے کی بجائے اگر ہم اس حقیقت کا تجزیہ کریں کہ گزرنے والے سو برسوں میں جو ملک اس دنیا کے نقشے پرموجود رہے ہیں اور جن کی ترقی سے وہاں کے رہنے والوں کی خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے اُن کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران صرف وہی ملک قائم رہے ہیں جنہوں نے تعلیم اور انصاف کو اپنی پہلی ترجیح بنائے رکھا ہے۔ سب کے لئے یکساں نظام تعلیم اور معاشرتی انصاف کی بدولت ان ملکوں نے نہ صرف ہر طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کیا بلکہ ترقی اور خوشحالی کے معاملے میں بھی آج تک اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ یہی وہ دو چیزیںہیں جو ملکوں اور قوموں کو ٹیکنالوجی کے اس دور میں حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کئے ہوئے ہیں جن ملکوں میں تعلیم یعنی خواندگی کی شرح سو فیصد ہے اور ہر شعبے میں فوری انصاف کے تقاضوں کی سو فیصد تکمیل کی جاتی ہے وہاں نہ تو کرپشن جڑ پکڑتی ہے، نہ ملاوٹ اور جعل سازی کو فروغ ملتا ہے، نہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے ، نہ اقربا پروری پروان چڑھتی ہے، نہ انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے ، نہ کسی سے رنگ، نسل، صنف اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا جا سکتا ہے، نہ وہاں مارشل لاء لگتا ہے اور نہ وہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت ایک ہی خاندان کی اگلی نسل کو وراثت میں سونپی جاسکتی ہے ۔ جو معاشرے اور ملک سماجی انصاف سے محروم ہو جاتے ہیں وہاں کے عوام مصیبتوں ، مشکلات اور مسائل کی ایسی دلدل میں دھنسنا شروع ہو جاتے ہیں کہ جس سے باہر نکلنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر ناممکن نہیں تو بہت دشوار ہو جاتا ہے۔

آج دنیا کے نقشے پر 50 سے زیادہ ممالک ایسے ہیں جن کی اکثریتی آبادی اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے لیکن ملاایشیاکے سوا کوئی مسلمان ملک ایسا نہیں جس نے گزشتہ چالیس سے پچاس برسوں میں تعلیم اور سماجی انصاف کو اپنے عوام کے لئے پہلی ترجیح بنایا ہو حالانکہ حضور نبی کریم ﷺ ، خاتم النبین ﷺ جب اس کائنات کے لئے اللہ کے رسول بنائے گئے تو آپ ﷺ نے علم اور تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کی بالا دستی کو اپنا مشن بنایا اور جس کے سبب مثالی ریاست مدینہ قائم ہوئی۔ مسلمان ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے حکمران کتنی بڑی خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں لیکن تعلیم اور سماجی انصاف اُن کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں۔ ملاایشیا نے 31 اگست 1957 کو برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی تو اس ملک کے حالات بہت دگرگوں تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاںکی سیاسی قیادت نے اپنی ترجیحات کا تعین کیا اور جب مہاتیر محمد کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے تعلیم اور انصاف کی فراہمی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا جس کے بعد ملک نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہوا بلکہ اس ملک کے رہنے والوں کی زندگی میں ترقی اور خوشحالی کے ستارے جگمگانے لگے۔ ملکوں اور قوموں کی ترقی میں سڑکیں ، پل ، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی، ایئر لائنز وغیرہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن جو معاشرے سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سو فیصد تعلیم کی سہولت اور سماجی انصاف کی آسان دستیابی سے محروم رہیں وہاں عوامی خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ میں نے پہلے بھی اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کی تھی کہ ہمارے ملک کے حکمران، ارباب اختیار اور سیاستدان اس لئے بھی تعلیم اور سماجی انصاف کی فراہمی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کرتے کہ ایسا کرنے سے رفتہ رفتہ سیاسی فرسودہ نظام پر سے ان کی اپنی گرفت کمزور ہونا شروع ہو جائے گی ۔ اگر پاکستان میں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہو جائیں اور سب کو یکساں تعلیم میسر آئے تو پھر عوام کا شعور بیدار ہو گا اور وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کسی سہارے کی تلاش کی بجائے خود اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ملکی سیاست پر اجارہ داریوں کا سلسلہ خود بخود ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر سماجی انصاف کی فوری فراہمی کو اولین ترجیحات میں شامل رکھنے سے کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق نہیں مار سکتا، کوئی کسی سے امتیازی سلوک نہیں برت سکتا، مراعات یافتہ طبقے کو قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی پر جوابدہ ہونا پڑے گا اسی لئے ہمارے ملک کا حکمران طبقہ ہر دور میں یا کسی بھی حکمران نے آج تک پاکستان میں تعلیم کی شرح کو 100 فیصد کرنے اور سماجی انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی ترجیحات متعین نہیں کیں۔ کہنے کی حد تک تو پاکستان، اسلامی جمہوری ملک ہے لیکن حقیقی طور پر وطن عزیز نہ اسلامی ہے اور نہ جمہوری۔ اگر پاکستان اسلامی ملک ہوتا تو ہماری قوم کی اکثریت ستر برس گزرنے کے باوجود جاہل نہ ہوتی اور ہمارے معاشرے میں ہر فرد کو یکساں اور فوری انصاف میسر آتا جو ملک علم کی روشنی اور انصاف کی دستیابی سے محروم رہے وہ اسلامی نہیں ہو سکتا۔ جہالت، ناانصافی اور ظلم کی کوکھ سے صرف اور صرف مسائل جنم لیتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کے جمہوری ہونے کا تعلق ہے تو میں اس کا موازنہ برطانیہ سے کرتا ہوں۔ یونائٹیڈ کنگڈم میں جمہوری روایت کا استحکام اس ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری تسلسل سے مشروط ہے۔ لیبر پارٹی ہو یا ٹوری کسی بھی سیاسی جماعت میں شخصیت پرستی یا خاندانی اجارہ داری کا دور دور تک کوئی تصور نہیں ہے، قائدین آتے جاتے رہتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں قائم رہتی ہیں اور اپنے منشور کی پاسداری کو اپنا نصب العین سمجھتی ہیں ۔ عام انتخابات میں ناکامی پر پارٹی لیڈر عام طور پر مستعفی ہو کر کسی دوسرے کے لئے پارٹی لیڈر شپ کی گنجائش پیدا کر دیتے ہیں پارٹی لیڈر کا انتخاب صرف اور صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے اندر مستحکم جمہوریت کی وجہ سے ہی ملک کے اندر جمہوری استحکام ہے جبکہ پاکستان کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر ایسا جمہوری تسلسل اور استحکام دیکھنے کو نہیں ملتا یعنی اگر ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک میں جمہوری اقدار کیسے فروغ پائیں گی؟ عملی طور پر نہ ہمارے اندر جمہوریت ہے اور نہ اسلام کے سنہری اصولوں کی پاسداری مگر ہم اسلامی جمہوری پاکستان ہونے کے دعویداری پر فخر کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک خود فریبی ہے۔ انصاف کے بغیر اسلام کا دعویٰ محض خوش فہمی اور پارٹیوں میں جمہوریت کے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت کے استحکام کا خواب صرف ایک دھوکہ ہے۔ پوری دنیا گزشتہ ایک صدی کے دوران جس رستے پر چل کر خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچی ہے ہم بھی اُسی منزل تک پہنچنے کے خواہش مند اور دعویدار ہیں مگر ہم الٹی سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنا رستہ اور سمت درست نہیں کریں گے اپنی ترجیحات کا ٹھیک تعین نہیں کریں گے ہم منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے بلکہ منزل سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ مجھے پھر سے اعادہ کرنا پڑے گا کہ علم اور تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح اور سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیر نہ تو کسی ملک و قوم نے آج تک ترقی کی ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان اِن دونوں ترجیحات کے بغیر اپنے قیام اور استحکام کے تقاضے پورے کر سکتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران اور ارباب اختیار اپنی سمت درست کر لیں اپنی ترجیحات ٹھیک کر لیں وگرنہ ہم خوشحالی کی منزل کے قریب ہونے کی بجائے دور ہوتے چلے جائیں گے۔