668

آدم علیہ اسلام کی پہلی بیوی کا نام لیلیتھ تھا

یہودی مذہبی کتاب تالمود میں یہودی روایات کے مطابق اللہ نے پہلے زمین سے لائی گئی مٹی سے آدم کی تخلیق کی اور پھر اگلے لمحے اسی مٹی سے آدم کی ہم ذات عورت لیلیتھ کی تخلیق بھی فرما دی تاکہ آدم کے دل بہلانے اور خدمت کا بندوبست کیا جاسکے، لیکن ان دونوں میں شروع دن سے اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے، آدم چاہتے تھے کہ چونکہ وہ لیلیتھ سے برتر پیدا کئیے گئے ہیں اسلئے جنسی عمل میں لیلیتھ نیچے ہو گی اور وہ اوپر سے آئیں گے، یہی فِٹ طریقہ ہے، جبکہ لیلیتھ چاہتی تھی کہ آدم نیچے ہوں، کیونکہ لیلیتھ ہر صورت آدم کے برابر ہونا چاہتی تھی، لیلیتھ کا کہنا تھا کہ چونکہ اللہ نے ہم دونوں کو ایک ہی مٹی سے بنایا ہے اسلیئے ہم دونوں برابر ہیں اور جنسی عمل میں بھی میں نیچے ہرگز نہیں آؤں گی، اس برابری کی لڑائی میں اختلافات اتنے شدت اختیار کر گئے کہ دونوں کا اکٹھے رہنا مشکل ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر لیلیتھ نے کچھ خفیہ ناموں کا ورد کیا اور جنت سے اُڑ گئی۔ لیلیتھ کے غائب ہونے پر آدم اپنے خالق کے سامنے عاجزانہ طریقے سے ہاتھ پھیلا کر دعا کیلئے کھڑا ہوا اور فرمایا، اے کائنات کے بادشاہ اور خالق، وہ عورت جو آپ نے میرے دل بہلانے اور آرام کیلئے دی تھی بھاگ گئی ہے، اس دعا پر اللہ نے فوراً تین فرشتے سی نوئے، سانسی نوئے اور سیمن گیلوف کو لیلیتھ واپس لانے کیلئے بھیجے، اور فرمایا کہ اگر وہ واپس آگئی تو اسکی پیدائش کا مقصد ٹھیک تھا، اور اگر اس نے انکار کیا تو اسکے سو بچے روزانہ کے حساب سے مار دیئے جائیں، فرشتے یہ احکامات لیکر فوراً تلاش کیلئے روانہ ہوگئے۔

فرشتوں نے لیلیتھ کو ایک گہرے سمندر کے درمیان جہاں مصری فرعون سمیت ڈوبے تھے، وہاں تیرتی ہوئی پایا اور اسے واپس لیکر جانے کا تقاضا کیا، لیکن لیلیتھ نے انکار کردیا اس پر فرشتوں نے دھمکی دی کہ وہ اسے سمندر میں ڈبو دیں گے، اس پر لیلیتھ چلائی کہ اسے چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ پیدا ہی اسلئیے کی گئی ہے کہ وہ نوزائدہ بچوں کو بیمار کر سکے، اگر نیا پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہو تو آٹھ دن اور اگر لڑکی ہوئی تو بیس دن تک ان پر اسکا غلبہ رہے گا۔ فرشتوں نے لیلیتھ کو واپس لے جانے کا اصرار کیا تو لیلیتھ نے فرشتوں کو اللہ کی قسم دے کر کہا کہ وہ واپس نہیں جائے گی اور وہ وعدہ کرتی ہے کہ جن بچوں کے گلے میں ان تین فرشتوں کے نام کے تعویز ہونگے انہیں کچھ نہیں کہے گی، اور مزید وہ ہر روز اپنے سو بچے مروانے پر بھی راضی ہے، فرشتے یہ بات سن کر واپس روانہ ہوگئے، اب اسلیئے ہر روز سو شیاطین ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ فرشتوں کے خالی ہاتھ واپس آنے پر اللہ نے آدم کی پسلی سے حوا پیدا فرما دی اور دونوں خوشی سے جنت میں رہنے لگے۔

کچھ یہودی عالم تالمود کی اس آیت کی ایسے بھی تشریح کرتے ہیں کہ اللہ نے پہلے پہل آدم کے دو فیز بنائے تھے، ایک عورت کی شکل اور جسم اور دوسرا مرد کا چہرہ اور جسم، دونوں آپس میں جڑے ہوئے تھے، بعد میں انہیں چلنے پھرنے میں مشکلات کی وجہ سے الگ الگ کر دیا گیا، اور یوں آدم اور لیلیتھ دونوں میاں بیوی کی شکل میں وجود میں آگئے۔

کچھ روایات کے مطابق لیلیتھ نے آرچینجل فرشتے کے ساتھ ہمبستری کر لی تھی اسلیئے اسے جنت سے ہمیشہ کیلئے نکال دیا گیا تھا، آرچینجل اونچے درجے کا فرشتہ یا فرشتوں کا سردار تھا، اسکا نام دو مرتبہ نیو ٹیسٹامن میں بھی آیا ہے اور اسے ابراہیمی مذاہب کے حوالے سے میکاعیل کہا گیا ہے۔

لیلیتھ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خطرناک اور خوبصورت بدروح کی شکل میں رات کو جنسی خواہش کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے اور اندھیرے میں لوگوں کے بچے چُرا کر بھاگ جاتی ہے، یا بچے قتل کر دیتی ہے اسلیئے کچھ لوگ اسے بچے کھانے والی بلا بھی کہتے ہیں۔

کچھ روایات کے مطابق لیلیتھ کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایک خاتون کا روپ ڈھال کر اسکے خاوند سے ہم بستری کر لیتی ہے اور ایک بچہ پیدا کردیتی ہے، یا اپنے آپ کو ایک مرد کے روپ میں ڈھال کر اسکی بیوی سے ہم بستری کر لیتی ہے اور یوں بغیر باپ کے بچہ پیدا کردیتی تھی، میاں بیوی کے آپس میں جائز تعلق سے پیدا ہوئے ہوئے بچے لیلیتھ کو پسند نہیں ہوتے تھے اور وہ انہیں موقع پا کر قتل کر ڈالتی تھی۔

سینکڑوں ہزاروں سال تک لوگ اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کو لیلیتھ کے حملے سے بچانے کیلئے اسکے گلے کے گرد تعویز باندھتے رہے ہیں، جس پر تین فرشتوں کا نام لکھا ہوا ہوتا تھا، سی نوئے، سانسی نوئے اور سیمن گیلوف، یہ تعویز نہ صرف بچوں کو بیماریوں سے بچاتے تھے بلکہ بڑوں کو مشت زنی، خونی رشتہ داروں سے سیکس اور اینل سیکس سے باز رہنے میں بھی مدد دیتے تھے۔ کئی عیسائی مذہبی نوجوان اپنا ایک ہاتھ اپنے آلہ تناسل پر باندھ کر اور دوسرا ہاتھ صلیب پر رکھ کر بھی سوتے رہے ہیں، تاکہ رات کو بے خبری میں کہیں لیلیتھ آکر انکے ساتھ سیکس نہ کر جائے اور فضول میں مزید شیاطین دنیا میں پیدا ہوجائیں۔

دوسری طرف جنت میں اللہ نے آدم کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ سب کچھ کھا سکتے ہیں سوائے ایک درخت کے پھل کے اور اگر انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو انہیں سخت سزا دی جائے گی، آدم کو اللہ نے یہ حکم ڈائریکٹ دیا تھا لیکن آدم نے حوا کو یہ بات خود بتائی تھی۔ کچھ روایات میں آتا ہے کہ لیلیتھ جنت سے نکلنے پر پیچ وتاب کھا رہی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ آدم اور حوا کو بھی جنت سے نکلوا دے، اسلیئے اس نے سانپ کا روپ دھار کر حوا کو بہلایا پھیلایا کہ اس ممنوع درخت کا پھل کھا کر وہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہی رہے گی، یہ سننا تھا کہ سانپ کی باتوں میں آکر حوا نے وہ پھل کھا لیا، کھانے کی دیر تھی کہ حوا کی جان لبوں پر آگئی اور اسے محسوس ہوا کہ وہ مر جائے گی، فوراً اسکے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر وہ مر گئی تو آدم دوسری بیوی لے آئیں گے، لہذا کسی طرح آدم کو بھی یہ پھل کھلا دیا جائے تاکہ دونوں اکٹھے مر جائیں، اس طرح اس نے آدم کو بھی بہلا پھسلا کر وہ پھل کھلوا دیا، اس کیبعد دونوں پر اللہ کا عتاب نازل ہوا اور دونوں کو الگ الگ زمین پر پھینک دیا گیا، آدم اور حوا ایک سو تیس سال تک علیحدہ علیحدہ زمین پر رہے اور یہودی روایات کے مطابق وہ اس دوران بدروحوں سے سیکس کرتے رہے، یہاں تک کہ انکا ملاپ ہوگیا اور انکا بیٹا سیٹھ پیدا ہوا اسکے بعد بیٹی ایزورا پیدا ہوئی پھر بیٹا کین اور بیٹی اعوان پیدا ہوئی اور بیٹا آبیل اور بیٹی آکلیمہ پیدا ہوئی اور بڑے ہونے پر انکی جوڑوں کے حساب سے آپس میں شادیاں کردی گئیں۔

یہ تحریر یہودی روایات اور یہودی مذہبی کتاب تالمود سے ماخوذ ہےاس میں مصنف کے اپنے خیالات شامل نہیں ہیں، لہذا مصنف کو برے الفاظ سے نہ پکارا جائے قارئین کی عین نوازش ہوگی، اسلامی نظریہ ان تمام خرافات سے پاک ہے اور مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ آدم کی ایک ہی بیوی تھی حوا اور اس تحریر میں جو لکھا گیا ہے وہ اسلامی لحاظ سے غلط ہے۔
ریسرچ اور تحریر #طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں