297

پیر بابا

پنجاب کے ایک دور دراز چھوٹے سے گاؤں میں ایک پینتیس چالیس سال کا پیر بابا رہتا ہے، جو دائمی درد دور کرنے کیلئے تعویز دیتا ہے۔ پیر صاحب کی دھوم دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، اردگرد کے میلوں دور گاؤں کے لوگ پیر صاحب کے ڈیرے پر تعویز لینے آتے ہیں۔

پیر صاحب کی ایک بہت بڑی کرامت ہے جو ڈیرے پر موجود ایک عمر رسیدہ خاتون ہر آنے والے سائل کو بتاتی ہیں۔ جب ڈیرے پر زیادہ لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو پیر صاحب سب کے سامنے اندر کمرے میں جاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ کافی دیر بعد پیر صاحب بازار کی طرف والے مین گیٹ سے اندر آ جاتے ہیں۔ حقیقت میں ایک دروازہ گھر کے پیچھے گلی میں بھی ہے اور یہ بات عام دیہاتیوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

پیر صاحب پیسے نہیں مانگتے مگر سائلین خود بخود جاتے وقت بابا جی کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال جاتے ہیں۔ بابا جی کا وقت اچھا گزر رہا ہے، گھر، گاڑی، اور پیسے کی ریل پیل ہے۔

جہالت، شعور کی کمی اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے لوگ خدا کے علاوہ دوسرے ذریعے ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں، جب خدا پر یقین کمزور ہوتا ہے تو ایسے بابے معاشرے میں اپنی جگہ خود ہی بنا لیتے ہیں۔ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے، اور اسی سے ہی مانگنا چاہیئے، جو خود اللہ کے در کے منگتے ہوں وہ دوسروں کو کیا دے سکتے ہیں۔

میرؔ بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

اپنا تبصرہ بھیجیں