297

مسجد کا مؤذن۔

رات کا آخری پہر تھا اور سردی تھی کہ ہڈیوں کے اندر تک گھسی جارہی تھی، اوپر سے بارش بھی اتنی تیز تھی جیسے آج اگلی پچھلی کسر نکال کر رہے گی۔ میں اپنی کار میں دوسرے شہر کے ایک کاروباری دورے سے واپس آرہا تھا اور کار کا ہیٹر چلنے کے باوجود میں سردی محسوس کررہا تھا۔ دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ بس جلد از جلد گھر پہنچ کر بستر میں گھس کر سو جاؤں۔ مجھے اس وقت کمبل اور بستر ہی سب سے بڑی نعمت لگ رہے تھے …

سڑکیں بالکل سنسان تھیں، حتیٰ کہ کوئی جانور بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ لوگ اس سرد موسم میں اپنے گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے۔ جیسے ہی میں نے کار اپنی گلی میں موڑی تو مجھے کار کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا۔ جس نے بارش سے بچنے کے لیے سر پر پلاسٹک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھا ہوا تھا اور وہ گلی میں کھڑے پانی سے بچتا بچاتا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں بھی کوئی شخص اس وقت باہر نکل سکتا ہے اور مجھے اس پر ترس آیا کہ پتہ نہیں کس مجبوری نے اسے اس پہر اس طوفانی بارش میں باہر نکلنے پر مجبور کیا …

میں نے گاڑی اس کے قریب جا کر روکی اور شیشہ نیچے کرکے اس سے پوچھا :
” بھائی صاحب! آپ کہاں جا رہے ہیں، آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں …؟ ”

انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا :
” شکریہ بھائی! بس میں یہاں قریب ہی تو جارہا ہوں اس لیے پیدل ہی چلا جاؤں گا … ”

میں نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا :
” اس وقت آپ کہاں جا رہے ہیں …؟ ”

انہوں نے بڑی متانت سے جواب دیا :
” مسجد …! ”

میں نے حیرانی سے پوچھا :
” اس وقت مسجد میں کیا کرنے جا رہے ہیں …؟ ”

انہوں نے کہا :
” میں اس مسجد کا مؤذن ہوں اور فجر کی اذان دینے کے لیے مسجد میں جارہا ہوں … ”

یہ کہہ کر وہ اپنے رستے پر چل پڑئے اور مجھے ایک نئی سوچ میں گم کر گئے۔ کیا آج تک ہم نے کبھی سوچا ہے کہ سخت سردی کی رات میں طوفان ہو یا بارش، کون ہے جو اپنے وقت پر اللہ کے بلاوے کی صدا بلند کرتا ہے …؟
کون ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ
” نماز نیند سے بہتر ہے ”

کون ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ :
” آؤ نماز کی طرف … آؤ کامیابی کی طرف ”

اور اسے اس کامیابی کا کتنا یقین ہے کہ اسے اس فرض کے ادا کرنے سے نہ تو سردی روک سکتی ہے اور نہ بارش …!

میرے نہایت ہی قابل قدر قارئین کرام جب ساری دنیا اپنے گرم بستروں میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے، تو وہ اپنے فرض کو ادا کرنے کے لیے اٹھ جاتا ہے …

تب مجھے علم ہوا کہ یقینا ایسے ہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے اللہ ہم پر مہربان ہیں اور انہی لوگوں کی برکت سے دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ میرا دل چاہا کہ نیچے اتر کر اسے سلام کروں، لیکن وہ جا چکا تھا، اور تھوڑی دیر بعد جیسے ہی فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونجی، میرے قدم بھی مسجد کی جانب اٹھ گئے اور آج مجھے سردی میں مسجد کی طرف چلنا گرم بستر اور نیند سے بھی اچھا لگ رہا تھا …!

رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

اللہ تعالٰی مجھ گناہ گار و سیاہ کار فرحان سمیت ہم تمام مسلمانان عالم کو سردی و گرمی، آندھی و طوفان، بارش و برف باری و دھند، الغرض ہر قسم کے سخت و آساں موسم و حالات میں صف اول میں تکبر اولى کے ساتھ باجماعت پنجگانہ نماز ادا کرنے کی تاحیات سعادت نصیب فرماتے ہوئے عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمیــــــــــــــن یارب العالمین …

میرے نہایت ہی محترم و مکرم قارئین کرام چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہوگا، لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز و باعث مغفرت ثابت ہو …(بشکریہ دستک)

اپنا تبصرہ بھیجیں